Mchoudhary

Add To collaction

تحمّل عشق بقلم ملیحہ چودھری

قسط 13

.................

گاڑی شاپنگ مال کے سامنے اُسکی پارکنگ میں رکھی تھی ... وُہ چاروں تو مول کے اندر شاپنگ کے لیے بڑھ گئی تھی جبکہ محسین صاحب مول کے سامنے والے ہوٹل میں چلے گئے تھے.... 

"وُہ بیٹھا موبائل میں لگا ہوا تھا جب اُسکی نظر سامنے بیٹھی ایک لڑکی پر پڑی... اور وہی ٹھہر سی گئی تھی....

اُسکے دل کی گھنٹیاں بجنے لگی تھی .... 
دل زور و شور سے گنگنانے لگا تھا... 

تُجھے دیکھا تو جانا سنم 
پیار ہوتا ہے دیوانہ سنم
تُجھے دیکھا تو جانا سنم

وُہ تو خیالوں کی دنیا میں نکل پڑا تھا...

ریڈ کارپیٹ پر سُرخ گلاب کی پنکھڑیاں پر چلتی یہ خوبصورت سی شہزادی سفید خوب گھر دار گاؤن کو پہنے بالوں کو کھلا چھوڑ ہوا تھا جو ہواؤں کی طرح ہواؤں میں اُڑ رہے تھے ..

تُجھے دیکھا تو جانا سنم 

ہاتھ میں گٹار پکڑے وُہ ایک چیئر اور بیٹھا تھا کالی سیاہ جینز پر سفید شرٹ پہنے وُہ بھی کوئی ہیرو سے کم نہیں تھا اور بھئی یہ تو وہ خود ہی بتہ سکتا تھا کہ محسین خان سلمان خان کو بھی پیچھے چھوڑ سکتا تھا .....

اُسنے جب اپنی شہزادی کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اُسکی آنکھوں میں دیکھ کر گنگنایا

تُجھے دیکھا تو جانا سنم 
پیار ہوتا ہے دیوانہ سنم
تُجھے دیکھا تو جانا سنم

ہونٹوں پر بڑی خوبصورت سی مسکراہٹ سجائے وُہ اُسکے ہی جانب بڑھ رہی تھی......

جیسے ہی وہ اُسکے پاس آئی اُسنے گٹار وہیں چیئر پر رکھا اور اُسکی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا 

ہاتھ کو تھام کر گول گول دائرے میں ایک ہاتھ کو اُسنے پیچھے کی طرف کیا ہوا تھا اپنا جبکہ دوسرے سے شہزادی کو گول گول دائرے میں گھماتے ہوئے گا رہا تھا

اب یہاں سے کہاں جائے ہم 
تیری باہوں میں مر جائے ہم

پھر ایک دم ہی اسکو اپنے قریب کرتے ہوئے اُسنے اسکو اپنے ایک ہاتھ کے بازو پر تھوڑا نیچے کی طرف جھکا کت اُسکی آنکھوں میں دیکھنے لگا تھا...

اوپر سے گرتے ہوئے پھول اس منظر کو اور خوبصورت بنا رہے تھے..

درمیان قد ، گورارنگ ، پتلی ستواں ناک بڑی بڑی کالی آنکھیں ، کندھوں تک آتے سنہری بال پتلی سی تھوڑی وُہ لڑکی بہت ہی پیاری لگی تھی اسکو ...

تُجھے دیکھا تو جانا سنم 
پیار ہوتا ہے دیوانہ سنم
تُجھے دیکھا تو جانا سنم

اب یہاں سے کہاں جائے ہم 
تیری باہوں میں مر جائے ہم

کئی لمحوں تک وہ اسکو دیکھتا رہا تھا... ابھی وہ خیالی پلاؤ ہی بنا رہا تھا.... جب موبائل نے اسکو حقیقت میں لا پٹکا تھا....

ایک دم سارا منظر غائب ہوا اور وہ بدمزہ ہو گیا ...

موبائل کی ٹون نے اسکو اپنی طرف متوجہ کروایا تھا ..

اُسنے گھبرا کر موبائل کی سکرین میں دیکھا تھا جہاں ' جیری ' کالنگ لکھا نظر آیا ... اُسنے ٹیڑھے میڑھے منہ کے زاویہ بنا کر بڑ بڑایا ...

"یہ لو رنگ میں بھنگ ڈالنے آ گئی میڈم محترمہ...

"کسی کو کبھی بھی میری خوشیاں بلکہ خوابی دنیا کی خوشیاں بھی برداشت نہیں ہوتی....

کال اٹھاتے ہوئے چلّایا... " کیا ہے اب کون سی نئی مصیبت پڑ گئی تمہیں... ؟ وُہ کاٹ کھانے کو دوڑا تھا.. 

بھئی لازم تھا آخر کو ہمارے خان صاحب کو جو خیالوں سے جگہ ڈالا تھا.....

جبکہ دوسری طرف سے رونے کی آواز سن کر اُسکے پیروں کے نیچے سے زمین خشک گئی تھی.....

"سس سارہ کک کیا ہوا ؟ بھوخلاتے ہوئے اُسکے حلق سے بمشکل لفظ نکل پائے تھے.....

"مم مم محسین ج جیری ! سارہ یہ بول کر رو دی تھی......

"کک کیا ہوا جیری کو ؟ یہ بول کر وُہ مول کے جانب بھاگا تھا......

"جب وہ مول کے اندر پہنچا تو وہاں کا ماحول ہی بلکل بدلہ ہوا تھا .......

ایسا لگتا تھا جیسے یہاں فائرنگ کی گئی ہو ..

"یہ سب دیکھ کر محسین کے تو دماغ کے فیوز اُڑے ہوئے تھے....

"سارہ رمنہ اور مومنہ ایک کونے میں کھڑی رو رہی تھی جبکہ پبلک کھڑی تماشہ دیکھ رہی تھی.....

وُہ اُن تینوں کی طرف بڑھا تھا ... "سارہ جیری کہاں ہے ؟ اور یہاں کیا ہوا تھا ...

لیکن وہ تینوں تو بسس رو رہی تھی... 

"بھابی بتاؤ بھی کیا ہوا ہے یہاں جیری کہاں ہے؟
پھر بھی کوئی نہ بولا اور بسس خاموش کھڑی آنسوؤں کو بہتی رہی تھی......

"کچھ پوچھا ہے کہاں ہے جیری ؟ اس بار وُہ آنکھوں میں غصّہ لیے چلّایا........

"سارہ نے سہم کر محسین کی طرف دیکھا اور روتے ہوئے بولی....

"م محسین جب ہم مول کے اندر آئے تو ہم تینوں ایک شاپ پر کھڑے ڈریس چیک کر رہے تھے.... 

آدھے گھنٹہ ہی ہوا تھا ہمیں جب کچھ لڑکے قریب تیس کی عمر کے تھے اور اُنکے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی اُن سب نے چہروں پر نکاب اوڑھا ہوا تھا.. جسکے باعث اُنکا چہرا نہیں دکھ رہا تھا....

اُنہونے فائرنگ شروع کر دی تھی اور فائرنگ کرتے ہوئے جیری کی طرف آئے تھے اور اُسس اسکو اپنے ساتھ لے گئے ... یہ بولتے ہوئے سارہ نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر بمشکل اپنی ہچکیاں روکنے کی ناکام کوشش کی تھی........

"اوہ گود !! جسکا ڈر تھا وہی ہو گیا ... محسین نے اپنے سر کو پکڑتے ہوئے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا جبکہ اُسکی آنکھیں لال سرخ ہو گئی تھی....

اُسنے جلدی سے خودکو سمبھالا تھا اور بولا...

"اچھا تُم سب گھبراؤ نہیں بہت جلد ہماری جیری ہمارے پاس ہوگی .. آپ سب گھر چلے...

"وُہ بولتا ہوا اُن تینوں کو کے لئے گھر کی طرف روانہ ہو گیا تھا ... آدھا گھنٹے کا سفر پندرہ منٹ میں طے کرتے ہوئے اُس نے گھر سے باہر گاڑی روک کر اُن تینوں کو وہی اتارا تھا.....

"سارہ گھر میں کسی کو بھی اسکی خبر نہیں ہونی چاہئے جو جھوٹ بولنا پڑے بول دینا.... لیکن کسی کو بھی پتہ نہیں چلنا چاہیے .." وُہ سُرخ آنکھوں سے سارہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا اور جن سے گاڑی کو آگے بڑھا دی تھی.......

وُہ تینوں بھی شکستہ قدموں سے رحمان ویلہ کے اندر بڑھ گئی تھی.....

...........................❤️❤️❤️

"اب پانی سر سے گزر چکا ہے کچھ کرنا ہوگا..... اُس شخص نے جیسے ایک حتمی فیصلہ سنایا تھا.... 

"نہیں ! کالم ڈاؤن ... جوش میں ہوش مت کھو .... انشاءاللہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو گے.....

دوسرے شخص نے اسکو شانت کروایا تھا.... اور پہلا شخص بد اسکو گھور کر رہ گیا تھا.... 

"ہاں یہ ٹھیک بول رہا ہے.. وہاں کھڑے تیسرے شخص نے دوسرے شخص کی تائید کرتے ہوئے پہلے سے کہا........

"تو پھر کیا کریں یار ! وُہ بے بس دکھائی دینے لگا تھا......

"وقت کا انتظار ! دوسرے نے پرسکون ہو کر جواب دیا..... "ہممم !!

"جیسا کہ تُم سب جانتے ہو ہم جال بچھا چکے تھے . پر نہ جانے کسنے اُس کمینے کو جا کر بتہ دیا.... دوسرا شخص بہت غصے میں بول رہا تھا.....

"خیر ! جو ہوا سو ہوا......

"اب ہمکو کچھ ایسا کرنا ہو گا جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے....... 

"تیسرے نے جیسے کچھ سوچتے ہوئے اپنی دلیل اُن دونوں کے سامنے رکھی تھی....

"ایگجیکٹلی ! 

"اپنے ساتھیوں سے بولو کہ اُس پر چوبیس گھنٹے نظر رکھیں..... 

"کب، کیا کرتا ہے ؟ مجھے اُسکی ایک ایک پل کی انفارمیشن چاہئے جب تک میں کچھ سوچتا ہوں...

"اوکے ! پر یار کچھ تو بتہ ؟ تیرے دماغ میں کیا چل رہا ہے ؟ پہلے شخص کو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا اس لیے اُسنے پوچھا تھا........

"تُو زیادہ سوچ مت بس دیکھتا جا اب آگے آگے کیا ہوتا ہے.. ؟ 

اُن دونوں نے ایک آواز ہو کر پہلے کو پیٹھ ٹھپ ٹھپائی تھی.... 

"اوکے لیکن کچھ تو پتہ چلے نہ ؟ اُسنے ایک بات پھر اُن دونوں سے پوچھا تو وہ دونوں مسکرا دیے تھے....

آخر تھے کون یہ تینوں ؟ 

........................💖💖💖💖

یہ کوئی اندھیرا نما کمرہ تھا خیر لائٹ آف تھی تو اسکو ایسا ہی لگا تھا.....

وُہ دھیرے دھیرے ہوش میں آ رہی تھی اُسکا سر بہت بھاری سا ہو رہا تھا.... فائرنگ کی آواز ابھی بھی اُسکے کانوں میں گونج رہی تھی.....

وُہ خود میں سمٹی تھی... 

"آہ ہ ہ ہ ہ ! سر میں ٹیس اٹھی تو وہ کرّاه اٹھی بے اختیار اپنے سر کو پکڑا تھا اُسنے .....

"کک کہاں ہوں میں ؟ کیوں لائے ہے مجھے یہاں ؟ وُہ روتے ہوئے چلّائی .....

تبھی کمرے کی لائٹ آن ہو گئی تھی ایک دم کمرہ روشنی سے نہا چکا تھا....

ایک بڑا اور خوبصورت سا یہ کمرہ تھا جس میں ایک طرف ڈریسنگ ٹیبل تھی ایک بڑا سا جہاز سائز بیڈ پڑا تھا ایک طرف دو چیئر تھی جو جسٹ گلاس وال کے برابر میں رکھی ہوئی تھی.... بلاشبہ یہ کمرہ بہت پیارا تھا.....

روشنی سے ایک دم اُسکی آنکھیں چندھیا گئی جس پر اُسنے جلدی سے آنکھیں موند کر پھر سے کھولی تھی...

اُسنے دیکھا گلاس وال کی طرف منہ کیے ایک نو جوان لڑکا کھڑا باہر کی جانب دیکھ رہا تھا یا پھر دیکھنے کہ ناٹک.......

"کک کون ہو تُم ؟ کیا چاہتے ہو مُجھسے ؟ بمشکل وُہ چلّا پائی تھی جبکہ آنسوؤں کی لڑی اُسکے گالوں پر اپنا نشان چھوڑ گئی تھی......

وُہ شخص پھر بھی نہ پلٹا تھا جبکہ یہ شخص اسکو جانا پہچانا سا لگ رہا تھا... کہی دیکھا تھا وہ سوچ ہی رہی تھی... لیکن گر بھی نہ سوچ سکی تھی وہ کیونکہ ایک دم سر میں ٹیس کی لہر جو اٹھی تو بے اختیار رو دی تھی.........

"آ آپ ٹھیک تو ہے ؟ اُسکی کرّاہٹ کو سن کر وہ شخص جلدی سے اُسکی طرف بڑھا اُس وقت جیری کا چہرا نیچے کی طرف تھا.....

جیسے ہی وہ اُسکے قریب پہنچا تو اُسنے ہاتھ سے وہیں پر روک دیا... اور سر کو پکڑتے ہوئے اُس شخص کی جانب نگاہ اٹھائی تھی..... اسکو دیکھ کر جیری کی آنکھیں پتھرا گئی تھی......

"آپ اآپ ؟

پتھرائی آنکھوں سے اسکو دیکھ کر اُسنے سوال کیا تھا.....

وہ جانتا تھا اسکا پہلا سوال کچھ ایسا ہی ہوگا .. ایک لمبی سانس کھینچ کر وُہ ایک سٹول کو پکڑ کر بیڈ کے نزدیک کرتے ہوئے بیٹھ گیا تھا.....

کچھ لمحوں تک سامنے بیٹھی لڑکی کا سر سے پاؤں تک جائزہ لیا تھا اُسنے.... پھر اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے گویا ہوا تھا......

"دیکھو پہلے میری بات گور سے اور تحمّل سے سننا اُسکے بعد اپنا فیصلہ سوچ سمجھ کر سنا دینا.....

"جو تمہارا فیصلہ ہوگا ہم خوشی خوشی مان لے گے..

جیری نے نا سمجھی سے اُس شخص کی طرف دیکھا تھا...... اسکو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا...

"خیر جو بھی تھا اسکو اتنا تو پتہ چل گیا تھا کہ یہ شخص اسکو ہرگز بھی نکسان نہیں پہنچا سکتا ہے...

"مس جیری روہیل خان !! 

"کیا آپ جانتی ہے آپکے بابا کون تھے؟ اُس لڑکے نے سوال کیا.....

"جس پر جیری نے گردن ہلائی تھی.. 

"ہاں ! 

وُہ آہستہ سے اُسکے انداز پر مسکرایا تھا.....

" اچھا ! کیا آپ بتہ سکتی ہے کس فیلڈ سے آپکے بابا تعلّق رکھتے تھے ؟

"آرمی ! اُسنے آہستہ سے ایک لفظی جواب دیا تھا..

"فائن ! کیا میں جان سکتا ہوں کہ آپ اتنا گھبراتی کیوں ہے ؟ آخر میں اُسنے شرارت سے پوچھا تھا جس پر جیری کے چہرے کے ایکسپریشن بدلے تھے چہرے....

"اوہ ہ سوری ! اگر آپکو بُرا لگا ہو .. اُس شخص نے اُسکے چہرے کے ایکسپریشن بھانپتے ہوئے جلدی سے معافی مانگی تھی ....

"کسی کے زخموں پر مرچ چھڑک کر معافی مانگ لینا یہ تو انسانوں کی فطرت ہے جو کبھی بدل ہی نہیں سکتی.. چٹّان جتنی سختی لیے اُسنے اُسکی معافی کو نظرانداز کرتے جواب دیا تھا.........

"بلکل صحیح کہا . ہم انسان ہے اور وُہ کہاوت تو سنی ہی ہوگی آپنے ...

کسی نے بارہ سال تک ایک کُتّے کی پوچھ کو نولکی میں رکھی تھی صرف اس وجہ سے کہ وہ سیدھی ہو جائے .. جب بارہ سال بعد وہ پوچھ نکالی تو فائر بھی وُہ ٹیڑھی ہی تھی....

ایسے ہی انسان کی فطرت ہے جو کبھی بھی بدلے گی ہی نہیں... پھر وہ آفیسرز بن جاؤ، پرائم منسٹر، کوئی تدریسی استاد ہو یا سرحدی فوجی... 

اسمیں ایک فطرت ضرور ہمیشہ رہتی ہے اور وہ ہے کسی کو طعنہ تشنی کرنے کا کسی کے زخموں پر مرچ لگانے کا.... 

اُس شخص نے مسکرا کر جواب دیا تھا.....

اُسکے جواب پر جیری نے اسکو دیکھا تھا....

"" اچھا !! چھوڑو ان باتوں کو جو بات کرنی تھی اسکو کرتے ہیں پہلے.....

جیسا کہ تُم جانتی ہو سعد احمد جو ایک گھٹیا قِسم کا انسان ہے .. اُسنے جیری کو دیکھا تھا جہاں سعد کے نام پر اُسکے چہرے پر خوف در آیا تھا....

"ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے مس جیری ! بے فکر رہو یہاں وُہ شخص کبھی نہیں آئے گا...

اُسنے بول کر پھر سے اپنی بات جاری کی تھی

"ہہہہ تو وہ ایک گھٹیا قِسم کا انسان ہے.... نا جانے دن میں کو وُہ کتنی معصوم زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کرتا ہے... نا کتنوں کی وُہ زندگی تباہ بھی کر چکا ہے... 

"وُہ انڈر ورلڈ کا سب سے بڑا اسمگلر ہے جو صرف لڑکیوں کہ اسمگلنگ کرتا ہے......

ہر ہفتے کئی کئی ٹرک لڑکیوں سے بھر کر وُہ باہر ملک بھیجتا ہے اور وہاں کے دہشت گردوں کو وُہ لڑکیوں کہ فروخت کر ایک بہت بڑی رقم حاصل کرتا ہے.......

"تُم سے زیادہ اسکو قریب سے کون جانتا ہوگا ؟ تُم نے اُسکے گھر میں کئی سال اُسکے ساتھ گذارے ہے...

وُہ بول ہی رہا تھا جب جیری استعال سے چلّائی ..

"مجھے یہ سب بتانے کی وجہ ؟ میں کیا کروں ان سب کو سن کر ؟

" ہہہہہہ یہ سوال بہت اچھا کیا مس جیری کہ میں آپکو یہ سب بتہ کیوں رہا ہوں ؟ اُس شخص نے پرسکون ہو کر سوال کو دہرایا تھا.....

"مس جیری وُہ ایک صدی سے آپکے پیچھے پڑا ہوا ہے... آپ اُسکا مین ٹارگٹ ہے..... کسی بھی حالت میں وُہ آپکو نہیں چھوڑے گا....

"پتہ ہے کیوں؟ 

"کیونکہ آپکو بیچ کر کو کہ آپ پہلے ہی طے شدہ ہے باہر ملک میں ... ایک بہت بڑی رقم جو آج تک اُس نے اتنی لڑکیوں کو فروخت کر نہیں کمائی وُہ صرف آپ صرف کے بدولت اسکو ملے گی.......

"مجھے ابھی پتہ چلا تھا کہ آپکو وُہ اغواء کرنے والا ہے .. میں نے تب ہی اپنے آدمیوں کو آرڈر دیا تھا کہ وہ آپکو وہاں سے غائب کر دیں..... کیونکہ میرے آدمیوں کی نظروں میں آپ شروع سے ہی تھی....

اُسنے ایک دھماکہ کیا تھا جیری پر.......

یہ سب بتانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ تُم ایک واحد راستہ ہو جو اُن معصوموں کو اُس عذاب خانے سے نکال کر محفوظ جگہ لا سکتی ہو.... 

"اُس شخص نے مین بات جیری کے سامنے رکھی تھی.......

"کیا آپ ہماری ہیلپ کر سکتی ہے ؟ بھی آس بھری نظروں سے اُسنے جیری کی طرف دیکھا تھا.....

"مم میں کیسے مدد کر سکتی ہوں آپکی؟ اُسنے اتکتے ہوئے سوال کیا 

"بس ایک بار آپ ہاں کا جواب دیں ... یہ میں طے کر لوں گا...... 

اُسنے کہا تھا.......

بہت سوچنے کے بعد جیری نے فیصلہ کیا تھا.....

"ٹھیک ہے میں تیار ہوں آپکی مدد کرنے کے لئے ... لیکن لیکن اس سے پہلے مجھے وہ سب بتاؤ جو آپ لوگ کرتے ہیں کیونکہ میں کسی بھی غیر قانونی شخص کا ساتھ محض بدلے کی آگ میں جھلسنے کی وجہ سے کسی کی بھی ہیلپ نہیں کر سکتی...

"اگر مجھے لگا کہ آپ کانونی طریقے سے یہ سب کر رہے ہیں تو میں پھر آپکا ہر طریقے سے ساتھ دوں گی.......

"اوکے ڈن !
...............................

ہمارا دس آدمیوں کا ایک گروہ ہے..

میں ہوں میجر شام غازی.....

ہم سب ' ایس آئی ڈی ' سے تعلّق رکھتے ہے.....

"ایس آئی ڈی " !! جیری نے زیر لب دہرایا تھا یہ نام ...

شام ہلکے سے مسکرایا تھا....

"ہاں ! ایس آئی ڈی ( سیکریٹ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ ) جہاں ملک میں ہونے والی ہر چیز پر نظر رکھی جاتی ہے.......

ایس آئی ڈی کا منتخب ملک کے کئی ہزار فوجیوں میں سے کچھ کا انتخاب کیا جاتا ہے .. ایس آئی ڈی ایجنٹس کا کام ملک کے دشمن کی معلومات کو آگے منتقل کرنا ہوتا ہے ....

وہاں کے ایجنٹس نہ صرف مقامی ہیں بلکہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہوتے ہیں.... جو گپت طریقوں سے اپنے کام کو انجام دے رہے ہیں.....

"ایس آئی ڈی انڈیا جیسے ملک کی حفاظت کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے.... " شام نے جیری کو سمجھایا تھا...

"ہاں ایس آئی ڈی مطلب ( سیکریٹ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ ) وہاں کے ہیڈ " میجر سمعان غازی احمد " یعنی میں.... 

سمعان احمد نے آج اپنا مکمل تعارف کروایا تھا....

جیری اس شخص کے ایک اور روپ کر دنگ رہ گئی تھی.....

بہت دیر تک وہاں خاموشی کا راج رہا تھا.... 

جسکو جیری کی گھبرائی اٹکتی آواز نے توڑا تھا.. ۔

"مم میں تو کوئی فوجی بھی نہیں ہوں نہ میں اتنی طاقتور ہوں میں تو بہت کمزور ڈری سہمی سی لڑکی ہوں....... کمزور سے دلیل جیری نے اسکو دی تھی...... جس پر وہ کھل کر ہنسا تھا......

"کمزور ڈری سہمی ہہہہ !! یہ سب بیکار کی دلیل ہے مس روہیل خان ..... انسان کے اندر نہ ڈر ہوتا ہے نہ وُہ کمزور ہوتا ہے جب تک جب تک کہ وہ کسی خوفناک بیماری کی زد میں نا اہ جائے......

"میں اتنا پاگل نہیں ہوں کہ کسی کو بھی بغیر سمجھے اپنے ساتھ شامل کرنے کا فیصلہ سنا ڈالوں...

"میں نے تمہارے اندر اُس شخص کی ٹھکانے لگنے کا عزم دیکھا ہے تمہارے اندر وُہ جلتی ہوئی آگ ہے جو اسکو جلا کر خاکستر کر سکتی ہے......

جس دن تمنے پروفیسر کے سامنے اُس شخص کو دھمکی دی تھی نہ.... اُس وقت تمہارے چہرا کچھ اور ہی بیان کر رہا تھا.... اور مجھے اپنے انتخاب پر اتنا تو یقین ہے مس جیری کہ وُہ کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتا........

آخری بات اُسنے ایک لمبائی سانس لے کر پوری کی تھی....

"مجھے اسکے بدلے کیا ملے گا ؟ اُسنے سمجھتے ہوئے شام سے سوال کیا تھا.......

"جو تُم چاہو ! جواب دیا گیا تھا..... 

"پھر ٹھیک ہے وقت آنے پر میں اپنی مانگ بتہ دوں گی.... جیسے اُسنے کام کرنے کے لئے حامی بھر لی تھی......

"میں ڈن۔ سمجھوں ؟ آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا ...

ڈن !! اُسنے گرین سگنل دے دیا تھا......

"اب آپکو اپنے کہے کے مطابق پیچھے نہیں ہٹنا..... شام نے اسکو کہا اور پھر ایک پیپر سے لدی فائل اُسکی طرف بڑھائی تھی.....

" یہ کیا ہے ؟ جیری نے پوچھا.....

"ایگریمنٹ فائل ! بتایا گیا..

اسمیں لکھا ہے جب تک آپ اس مشن میں رہے گی کسی سے بھی نہیں ملے گی پھر چاہے وہ آپکے کتنے ہی قریب کیوں نہ ہو .... 

آپکا معاشرے میں ایک الگ ہی نام ہوگا..... 

اس مشن کو درمیان میں چھوڑ کر آپ بلکل نہیں جا سکتے اگر گئے تو آپکو ایجنٹس بغیر دیر کیے شوٹ کر دے گے........

اگر آپکو منظور ہے تو اس پر سگنچر کر سکتی ہے...

اُسنے پین کو اُسکی طرف بڑھایا تھا... جسکو جیری نے بغیر کوئی تاخیر کیے پکڑ لیا تھا اور اللہ کا نام لے کر سیگنچر کر دیے تھے .....

اب سعد جیسے درندے کو اُسکے انجام تک پہنچانا تھا پھر چاہے اسمیں اُسکی جان ہی کیوں نا چلی جائے اسکو کوئی پرواہ بھئی تھی.......

"ٹھیک ہے مس جیری ! کل آپ ٹریننگ سینٹر جائے گی..... جہاں آپکو کچھ الگ طریقے سے ٹرین کیا جائے گا... آپکی یہ ٹریننگ صرف دو ماہ کی ہوگی...
ویسے تو چھ ماہ کی ہوتی ہے ٹریننگ بٹ آپکو اسپیشل ٹرین کیا جائے گا کیونکہ اس مشن کو آپکی اسد ضرورت ہے..

چالیس دن آپکی ان چالیس دن میرے انڈر آپکی ٹریننگ ہوگی جسمیں شوٹنگ ، جمپنگ ، فائٹنگ، سیلف سیکیورٹی، رائڈنگ، جوڈ کرّاٹیں کی چند ٹرکس میں ٹریٹ کروں گا اُسکے بعد آپکو ہیکنگ ڈیپارٹمنٹ میں پراگلیڈنگ ٹو ویکس رہنا ہوگا پھر آپکو اسسٹنٹ ڈائریکٹر مس نیلم نیازی ایک ویک اٹینڈ کرے گی اُسکے بعد آپکو ایس آئی ڈی کا ٹیسٹ کلیئر کرنا ہوگا 
Physiological tests, out door test , Interviews ,testing program 

ان سب کی ڈیٹیلس میں آپکو ٹریننگ کے دوران دیتا رہوں گا... اوپر سے آرڈر ہے آپکو ہر حالات میں ہمیں اس مشن میں شامل کرنا ہوگا آپکو ہم ریزیکٹ تو نہیں کر سکتے لیکن آپکی ٹریننگ باقیوں سے بہت ہارڈ ہوگی جو کہ ان ٹو مونٹھ میں کمپلیٹ اور ہر سچویشن کو مدّ نظر رکھتے ہوئے آپکو کلیئر کرنی ہوگی...... 

"کیا آپ کر سکتی ہے ؟ آنکھوں میں سنجیدگی لیے شام نے پوچھا تھا... بہت دیر تک وہ خاموشی سے سوچتی رہی اور پھر ایک فیصلہ کن انداز میں جیری نے ہاں میں گردن ہلا کر جواب دے دیا تھا.....

"اوکے پھر صبح پانچ بجے تیار رہنا.... وُہ جانے لگا تھا کہی اُسکے بڑھتے قدموں کو جیری کی پرسوچ آواز نے رکنے اور مجبور کر دیے تھے..

"ایک منٹ اگر میں اتنے دن باہر رہی اور پھر اچانک تایا ابّا کے پاس اُنکے گھر واپس گئی تو ؟ آپ جانتے ہی ہیں ایک اغواء یا گھر سے بھاگی لڑکی کا مقام کیا ہوتا ہے......

اُسنے اپنا بہت دیر سے دل میں چلنے والے ڈر کو اُسکے سامنے رکھا تھا.....

"سمپل ہے ! اگر تم ساتھ دو تو. ؟ شام نے کچھ سوچ کر کہا تھا......

"کیسا ساتھ ؟ دھڑکتے دل سے اُسنے پوچھا.....

"مُجھسے جب تک یہ مشن ہے تب تک کے لیے نکاح کر لو .... مشن مکمل ہوتے ہی میں آپکو آزاد کر دوں گا..... شام نے اُسکے سامنے پیش کش رکھی تھی....

"تُم اسکو ایک ڈیل ہی سمجھو بتاؤ منظور ہے ؟ 

"آنکھیں پھاڑ کر جیری اس شخص کو دیکھ رہی تھی جسکے لیے نکاح صرف ایک ڈیل تھی.....

بہت سوچنے کے بعد جیری جب اور کوئی حل نہیں دکھائی دیا تو اُسنے کہا تھا....

"ہ ہاں م م تیار ہوں.. ! اوکے آج شام تیار رہنا .. سنجیدگی سے جواب دے کر اُسنے اسکو اپنے پیچھے آنے کا کہا اور باہر نکلتا چلا گیا تھا.....

وُہ بھی اُسکے پیچھے باہر تک آئی اور خموشی سے آ کر گاڑی میں بیٹھ گئی تھی......

گاڑی کی سپیڈ بڑھی تھی... اور آگے روڈ پر روا دوا ہو گئی تھی......

...........................💗💗💗💗

زندگی بھی بلکل اُن دوڑتے ہوئے شخص کے قدموں کی طرح ہے جن کو ہم کبھی کاؤنٹ ہی نہیں کر سکتے....

یہ دوڑتی ضرور ہے لیکن کب کیسے کہاں کتنی رفتار سے دوڑی کوئی اسکو کاؤنٹ نہیں کر سکتا......

اب یہ زندگی میں طے ہے کہ کون لڑ کھڑا تا ہے بلکل بھاگتے ہوئے شخص کی طرح جیسے وہ بھاگتا بھاگتا ایک دم سے پاؤں میں موچ آ جانے کی وجہ سے نہیں دوڑ پاتا ہے........ لیکن اس دوڑتے ہوئے پاؤں کی موچ اور زندگی کی موچ میں بس اتنا فرق ہے کہ پاؤں کی موچ پر مرہم لگا کر ٹھیک کر سکتے ہیں پر زندگی کی موچ میں انسان اپنی سانسوں کو بھول کر سفر آخری طے کر تا ہے.....

جیری نے جو سفر اور جس منزل کا انتخاب کیا ہے کیا معلوم کسی کو وُہ کون سا سفر طے کریگی؟ 

ہمشہ بدلے کی آگ دوسرا شخص ہی بھڑکاتا ہے اور جب تک وہ آگ تکمیل نہیں پا لیتی پھر بدلہ لینے والے شخص کو سکون نہیں ملتا.....

ایسے ہی جیری کے اندر بدلے کی آگ کو شام نے ہوا دی تھی... جسکی چنگاری بن کر کب فٹے گی یہ وقت ہے طے کرے گا......

گاڑی رحمان ویلہ کے سامنے رکی تھی..جیری نے شام کی طرف دیکھا تھا۔۔۔ شام نے پرسکون ہو کر اسکو اندر جانے کا اشارہ کیا جسکی تعمیل کرتی وُہ رحمان ویلہ کے اندر چلی گئی تھی...

اُسنے جیسے ہی ہول میں قدم رکھا اسماء بیگم صوفے پر بیٹھی اسکو روتے ہوئے نظر آئی تھی اسماء بیگم کے ارد گرد میمونہ رمنہ اور سارہ کھڑی اُنکو تسلّی دینے کے کوشش کر رہی تھی... 

رحمان صاحب اور اُنکے تینوں بیٹے اُنکے پاس بیٹھے ہوئے تھے جبکہ رحمان صاحب نے تو اپنا سر دونوں ہاتھوں سے پکڑا ہوا تھا.....

جیری نے جب یہ سب دیکھا تو خوف کی ایک لہر اُسکے وجود کو کاٹ کھانے کو دوڑی ڈرتے ڈرتے اُسنے اپنے قدم اندر کو بڑھائے تھے......

" تت تایا ابّا ! اٹکتے ہوئے اُسنے رحمان صاحب کو پُکارا جبکہ چہرا خوف کی وجہ سے زرد پڑ رہا تھا....

جھٹکے سے سب نے آواز کے تعاقب میں دیکھا تھا...

ماتھے اور چوٹ کے نشان جس پر بینڈید لگائی ہوئی تھی... زرد پڑتا چہرا جس پر سے خوف کی لکیریں واضح طور پر دکھ رہی تھی گلابی آنکھیں جو رونے کی وجہ سے اور گلابی ہو چکی تھی میلے کچلے کپڑے جن پر جگہ جگہ مٹّی کے نشان پڑے ہوئے تھے ابتر سی حالت تھی جیری کی......

"میری بچی ی ی ! ایک دم اسماء بیگم اپنی جگہ سے اٹھی اور جیری کو اپنی آغوش میں لیا جہاں جیری کو دنیا جہان کا سکون میسّر ہوا تھا جس سکون کی تلاش اسکو برسوں سے تھی .. ہے اختیار جیری کا دل بھر آیا تھا اور وہ اسماء بیگم کے سینے سے لگ کر بے تحاشہ رونے لگی.......

رحمان صاحب نے بھی جیری کے سر اور شفقت بھرا ہاتھ رکھا تھا اور اس ایک ہاتھ کی جگہ اُسکے سر پر کئی ہاتھوں کا سایہ ہوا تھا.......

"الحمدُللہ ! اُسنے آنکھیں بند کئے اللّٰہ کا شکر ادا کیا تھا.......

"مجھے یقین ہے خود سے زیادہ بیٹی کبھی یہ مت سمجھنا کہ تُم ہماری نظروں میں غلط ہوگی.....

جو تُم کروگی آئندہ زندگی میں ہم سب تمہارے ساتھ ہے اور جو تمہارے ساتھ ماضی میں ہوا اُسکے لیے ہاتھ جوڑ کر معافی چاہتا ہوں....

رحمان صاحب شرمندہ سے ہاتھ جوڑ کر اپنے باپ کی گئی غلطیوں کے طلبگار کھڑے جیری سے معافی مانگ رہے تھے......

"ت تایا ابّا ! بے اختیار جیری نے رحمان صاحب کا ہاتھ پکڑا تھا اور ان پر بوسا دیتی ہوئی بولی....

"جو غلطی آپنے کبھی کی ہی نہیں اُنکی کیسی معافی ؟ تایا ابّا میری قسمت میں یہ سب لکھا تھا جو ہو گیا اسکو بھول جائے آپ سب میرے اپنے ہے مجھ پر حق رکھتے ہیں ہر طرح کا.... 

اور ویسے بھی بڑے ڈانٹتے ہوئے اچھے لگتے ہے معافی مانگتے ہوئے نہیں........ وُہ بول کر رونے لگی تھی..... اسماء بیگم نے اُسکا ماتھا چُما اور اسکو اپنے سینے میں بھینچ لیا تھا.........

جیری سے کسی نے بھی کچھ نہیں پوچھا تھا... تھوڑی دیر بعد جیری اپنے کمرے میں چلی گئی تھی... 

رحمان صاحب بھی اپنے کمرے میں چلے گئے تھے جبکہ رمنہ اور مومنہ رات کے کھانے کی تیاری کے لیے کچن میں گھس گئی تھی .... اسماء بیگم باہر لان میں ملازمہ کو کسی کام کی ہدایت دینے جبکہ ہمارے محسین صاحب گاڑی کی چابی اٹھا کر گاڑی لیے رفو چکر ہو گئے تھے سارہ بھی شکستہ قدموں سے جیری کے روم کی طرف بڑھ گئی تھی......

.....................💖💖💖💖💖💖

Epi 13 published ho gaya hai ab aap pdh skte hai agr psnd aaya toh vote comments share jroor krna...






   0
0 Comments